جیسے جیسے سوچوں کے زاویے بدلتے رہے
اہل خواب وحشت میں آئینے بدلتے رہے
شوق کے حوالے سے یہ طلسم بھی دیکھا
منزلیں وہیں پر تھیں ۔ فاصلے بدلتے رہے
شجر اور بجلی میں ہو گی دوستی لیکن
کس کے خوف سے طائر گھونسلے بدلتے رہے
اک فقط محبت ہے جو کبھی نہیں بدلی
حرف اور معانی کے سلسلے بدلتے رہے
اپنے ہی مداروں میں گھومتے تھے ہم دونوں
لوگ ہم پہ سوچوں کے نظریے بدلتے رہے