ایک بھٹکے ہوئے راہی کو سہارا دے کر
جھوٹی منزل کا نشاں مجھ کو دکھایا کیوں تھا
خود ھی طوفان اٹھانا تھا محبت نے اگر
ڈوبنے سے میری کشتی کو بچایا کیوں تھا
جسکا انجام اشکوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ایسا خواب میری آنکھوں کو دکھایا کیوں تھا
تجھکو معلوم تھا اک دن تیری رسوائ ہو گی
اَن کہا پیار اپنے من میں بسایا کیوں تھا
اب ہے کیوں اپنے انجام سے پشیماں سائیں
تُو نے اِک بےوفا سے دل ہی لگایا کیوں تھا