ایک تنہا سا مسافر
میری نظروں میں ابھرتا ہے
جو تیرے شہر سے گزرتا ہے
جانے کس جستجو میں رہتا ہے
کبھی رکتا کبھی ٹھہرتا ہے
اس کا چہرہ دھواں دھواں ایسے
جیسے ہر روز وہ بکھرتا ہے
موج در موج اسکی آنکھوں میں
اک سمندر سا کیا ابھرتا ہے
جیسے رستے ہکارتے ہوں اس
در بدر تنہا سفر کرتا ہے
کیوں اسے کوئی ہمسفر نہ ملا
وہ اکیلا ہی سفر کرتا ہے