ایک تھا فسانہ اے یار اور اس کی یاری تھی۔
Poet: Aamir Veesar By: Aamir Ali Veesar, Khairpurایک تھا فسانہ اے یار اور اس کی یاری تھی
کہی تھی دھوپ اور کہیں بارش جاری تھی
مکان میرا بھی کچا تھا اور آندھی سازی تھی
دل میں لہو بھی ٹپکا تھا اور آنکھہ بھر آئی تھی
پانی ڈالنے کے لئے ابھی جا رہا تھا جلے ہوئے آشیانوں پر
مڑ کے جو دیکھا تو سامنے صرف خاک باقی تھی
میں حیرت میں ہوں کہ جلے کیسے وہ خالی چراغ
جن میں ایک بوند بھی جلانے کو نہ ڈالی تھی
میں حیرت میں ہوں کہ جلے کیسے وہ خالی چراغ
جن میں ایک بوند بھی جلانے کو نہ ڈالی تھی
بس یہی تو کرشمے ہوتے ہیں جانے کیوں میرے خلاف
کہ جب بھی رونے کو آئی تو میری ہی باری تھی
وہ جو چھوڑ گیا تھا نہ مجھ کو تنہا کر کے
اسکی یاد تھی دل میں اور آنکھ جاری تھی
اور سنائوں کیسے قصے میں تجھ کو "اے ویسر"
کے بازی "عامر" نے جب بھی لگائی تو وہ ہاری تھی
More Love / Romantic Poetry






