Add Poetry

ایک تھا فسانہ اے یار اور اس کی یاری تھی۔

Poet: Aamir Veesar By: Aamir Ali Veesar, Khairpur

ایک تھا فسانہ اے یار اور اس کی یاری تھی
کہی تھی دھوپ اور کہیں بارش جاری تھی

مکان میرا بھی کچا تھا اور آندھی سازی تھی
دل میں لہو بھی ٹپکا تھا اور آنکھہ بھر آئی تھی

پانی ڈالنے کے لئے ابھی جا رہا تھا جلے ہوئے آشیانوں پر
مڑ کے جو دیکھا تو سامنے صرف خاک باقی تھی

میں حیرت میں ہوں کہ جلے کیسے وہ خالی چراغ
جن میں ایک بوند بھی جلانے کو نہ ڈالی تھی

میں حیرت میں ہوں کہ جلے کیسے وہ خالی چراغ
جن میں ایک بوند بھی جلانے کو نہ ڈالی تھی

بس یہی تو کرشمے ہوتے ہیں جانے کیوں میرے خلاف
کہ جب بھی رونے کو آئی تو میری ہی باری تھی

وہ جو چھوڑ گیا تھا نہ مجھ کو تنہا کر کے
اسکی یاد تھی دل میں اور آنکھ جاری تھی

اور سنائوں کیسے قصے میں تجھ کو "اے ویسر"
کے بازی "عامر" نے جب بھی لگائی تو وہ ہاری تھی

Rate it:
Views: 425
30 Mar, 2019
Related Tags on Love / Romantic Poetry
Load More Tags
More Love / Romantic Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets