وحشت ایسی ہے کہ جیسے کوئی بیاباں ہوں
اداسی ایسی کہ صدیوں سے ویراں ہوں
تمہں معلوم ہو میری حالت کا سبب شاید
لوگ کہتے ہیں میں کچھ پریشاں ہوں
حرف لفظ تخیل سبھی لٹا بیٹھے ہیں
میں وہ شہر جو بربادی پہ خاموشاں ہوں
حریف تو حریف احباب بھی قاتل نکلے
خود اپنی رقابت پہ میں حیراں ہوں
ایک مدت سے بے خواب ہیں آنکھیں
ایک مدت سے تیری تعبیر میں سرگرداں ہوں
ضبط لازم ہے ورنہ بے تاب ہیں آنسو
چاہ کر بھی تیرے نام سے گریزاں ہوں
تشنگی ایسی کہ تشنگی بھی تڑپ جاۓ عنبر
میں اپنی ذات میں اک شام ء غریباں ہوں