ایسا کرتے ہیں کہ پیغام سنایا جائے
ایک ہی جام محبت کا پلایا جائے
اپنے افکار کی آنکھوں سے سمندر لے کر
کیوں نہ اک نقش ہی پانی پہ بنایا جائے
آؤ مل جل کے کوئی اپنا ہی چینل کھولیں
جس میں دنیائے محبت کو دکھایا جائے
اپنے آنگن میں کسی روز سجا کر سورج
موم کے جسم کو کچھ دیر جلایا جائے
حال میں حالِ شکستہ کی جھلک ہے دیکھو
قوم کو آئینہ خانے میں نہ لایا جائے
مجھ کو ماضی کے اندھیروں میں نہ جلنے دینا
میں دیا ہوں تو سرِ راہ جلایا جائے
روح کا کرب ہے آنکھوں سے جھلکتا وشمہ
کیسے اس حال میں دلہن کو سجایا جائے