ایک ہیجان نہ ہو جاءے کہیں
درد دل عام نہ ہو جاءے کہی
ڈور سانسوں کی اٹکتی سی ہے
وصل دو گام نہ ہو جاءے کہیں
شکوہ ہم سے کہ وفا شعار نہیں
ایسی دشنام نہ ہو جاءے کہیں
ہوک اٹھتی ہے دبا لیتا ہوں
عشق بدنام نہ ہو جاءے کہیں
بیٹھتا ہوں میں پس پشت رقیب
ان پہ الزام نہ ہو جاءے کہیں
دل میں پلتی ہے تمنا طاہر!
تشت از بام نہ ہو جاءے کہیں