اے متاعِ دل ! افزائے جاں
نازِ جاناں ! جانِ ایماںؔ
یوں کیوں مجھے ستاتے ہو تم؟
پھر بعد ظلمت کے, حرفِ دعا بن جاتے ہو تم
تمہاری یہ نشیلی آنکھیں
کرنِ آفتاب سے جب ٹکراتی ہیں
میری غزلیں مکمل ہو جاتی ہیں
سنتی ہیں جب کلیاں, ہولے سے شرماتی ہیں
اوّل تمہارا قاتل لہجہ دوسرا یہ اندازِ گفتگو
عمر بھر رہوں سامعہ تمہاری اور نہیں میری کوئی آرزو
میں سندیس ہوا کو سنا کر
بھیجوں جب بھی تمہاری نذر...ایسا کرنا
اس ہوا سے خود کو ٹکرا کر
ذرا سا مسکرا دینا, ذرا سا گنگنا دینا
اے دلرباب ! یہ دم ہوئے پانی مجھکو کافی نہیں ہے
آبِ حیات ہے تو پلا ورنہ دوسرا کوئی پانی پانی نہیں ہے