اے حُسنِ جُواں میرا اک کام کر دے
اپنی زندگی کے بس دو پل میرے نام کر دے
مجھ میں کچھ خامیاں ہیں بر حق
تُو آ کے بد نام مجھے سریام کر دے
میں ہستے ہستے جان قربان کر دوں
تُو اپنے ہاتھوں سے قصہ تمام کر دے
مجھے خُوشی ہو گی ایسی موت پے
تُو شہادتِ عشق میرا انعام کر دے
نہ میرے پیار کے بدلے پیار دے مجھے
اپنی نفرت ہی میری محبت کا انجام کر دے
سُنا ہے نظامِ فلک تیری بات مانتے ہیں
نظریں جُھکا کے آج حسین شام کر دے
کنول کا پھو ل ہو یا کومل گلاب ہو
سورج کی کرن ہو یا حسین مہتاب ہو
تُو دیکھے جس کی جانب بس اپنا غلام کر دے
بادل بنتے ہیں تیری زلفوں کے سائے سے
کھول کے لہرائے تو بارش کا مقام کر دے
تُو بولے تو ہر لفظ تیرا شاعری لگتا ہے
اس کے آگے تُو نہا ل کے ہنر کو عام کر دے
نہ ہر بار ترچھی نگاہ سے د یکھ نہا ل کو
اک بار ہس کے مجھے سلام کر دے
کومل ہاتھو ں میں تلاش کر میرا نام
نہا ل کا اعلان بھری محفل اژدہام کر دے