چپکے سے آئینے کی حقیقت چرا کے لا
اے راز مجھے آج مجھی سے ملا کے لا
کب سے میرا نصیب ترستا ہے ضیا کو
مٹھی میں کبھی یاد کے جگنو دبا کے لا
تم کو بھی داد حرف کا آ جائے سلیقہ
دل کو نگار حسن سے جا جا ملا کے لا
ممکن ہے اب بھی ان سے صدا قیس کی آئے
صحرائے نجد سے ذرا پتھر اٹھا کے لا
اے شوق کی معراج لب یار سے جا کر
یونہی کبھی خمار کے موسم چرا کے لا
کس نے کہا چکور کی بے لوث ادا کو
جوش جنوں پہ چاند کی کرنیں سجا کے لا
آیا ہے تیرے شہر میں اک شخص یگانہ
پلکوں پہ اسکی پھونک سے شمعیں جلا کے لا
مدت سے ڈھونڈتے ہو ناں آب حیات کو ؟
جا اب کے میرے خون میں آنسو ملا کے لا