اے زندگی ترے لیے مجبور ہو گیا
محروم دل کے ہاتھ سے محصور ہو گیا
پنچھی تمہاری یاد کے یہ کیا رہا ہوئے
ہر وادیءِ امید سے ہی دور ہو گیا
ہم مرکزِ نگاہ تھے جس کے اسی کے غم
اتنے اٹھائے آج کہ مذکور ہو گیا
کر کے ستم ہزار وہ نادم جو ہو گیا
دل بھی ہمارا موم تھا مجبور ہو گیا
کیا یہ بھی کوئی دل ہے کسی دل فگار کا
لغزش ہوئی تو پاؤں پہ ناسور ہو گیا
بھر بھر کے دے رہا ہے فلک تلخ جام غم
کیا ذوق پایا ہیں کہ وہ ہی چور ہو گیا
ہاں پائے صبر تھک گئے لیکن ادھر تو دیکھ
وشمہ کو کھو کے وہ بھی مغرور ہو گیا