نہ تھے کُورِچشم مگر یہ سفر بازیچہ فریبِ نظر بہت
ازروۓ فہم ہوے حیراں گرچہ آیا نہ سمجھ آیا بہت
جاتے جاتے اے زندگی تو نے نقاب اُ ٹھایا بہت
دبیز پردوں میں چھپا اصل ہم کو دکھایا بہت
مگر آشکارِ اسرار سے قبل تو نے ہم کو رلایا بہت
جاتے جاتے اے زندگی تونے ہم کو سکھایا بہت
نہ تھے ہم زرہ آفتاب نہ زرہ ماہتاب مگر
انتہاۓ شوقِ سخن وری نے سجل بنایا بہت
اُس بادہ نوش کو بزمِ سخن میں سمجھایا بہت
آی نہ حیا اُن کو مگر آی یوں ہم کو لاج بہت
چھوڑ گیا تھا وہ پھر کبھی نہ آنے کے لیۓ
اختتامِ سفر کے قریب وہ اپنی جانب لوٹ آیا بہت
درخشندے اپنے مقدر کا رونا ہم نے اب رولیا بہت
اپنے جانے اور ان کے رونے کا اب وقت آیا بہت
(درخشندے)