اے صنم، تُو خدا نہ بن جانا
ایک ہے، دوسرا نہ بن جانا
اب تو عادت سی ہو گئی تیری
درد رہنا، دوا نہ بن جانا
مجھ کو چلنا ہے اپنے رستے پر
راہ میں التجا نہ بن جانا
زندگی کے کئی مقاصد ہیں
صرف تُو مدعا نہ بن جانا
لفظ اپنا بھرم ہی کھو دیں گے
رہزنو، رہنما نہ بن جانا
دے سکو گر قرار دے دینا
آرزو سے سزا نہ بن جانا
آشنائی کے زخم ہیں اظہر
تُو بھی اب آشنا نہ بن جانا