اے غم کی رات ترا یہ غبار ختم ہوا
ہمارا زندگی پہ اختیار ختم ہوا
چلو نا بند ہیں ویران رات کی آنکھیں
۔سحر طلوع ہوئی انتظار ختم ہوا۔
گزار لیں گے خزاؤں سے پھر گلے مل کر
ہمارے آنے پہ موسم بہار ختم ہوا
اے زندگی پھر اشاروں میں بات مت کرنا
ترا مقام ، ترا اعتبار ختم ہوا
نہ جانے کیسی قیامت کی نارسائی ہے
نہ آیا مجھ پہ ترے اختیار ختم ہوا
ہمیں یہ ضد ہے کہ تجھ سے کبھی نہ مانگیں گے
ترے وصال کا منظر،خمار ختم ہوا
حسیں رتوں میں مہکتی ہوئی بہاروں میں
بہار ہو نہ ہو جشن بہار ختم ہوا
تُو اپنی ذات پہ اتنا نہ مان کر وشمہ
تُو مجھ کو چھوڑ نا میرا بھی پیار ختم ہوا