اے محبت سوچنا تو بھی کبھی آرام سے
کیا ملا تجھ کو سرِ بازار اس نیلام سے
رنج و غم کی بارشوں میں تُو بھی تو رسوا ہوئی
حرف تجھ پر بھی تو آیا گردشِ ایام سے
میں نے تو شعر و سخن سے کر کے دیکھی دوستی
تو بتا کیا تو نے پایا اس شبِ گمنام سے
رو رہی ہے رات کی یہ تیرگی دل تھام کے
زندگی چیخی یہاں جب بے وجہ الزام سے
منزل مقصود وشمہ آج پھر ہے منتظر
رائیگاں ہے میرا اب شکوہ وفا کے گام سے