ستاروں کو جو چھو کر دیکھتے ہیں
سکندر ہیں مقدر دیکھتے ہیں
سمندر میں ہمیں دکھتے ہیں قطرے
"وہ قطروں میں سمندر دیکھتے ہیں"
دریا سے بھی کچھ آگے ہے منزل
زمیں تم، ہم تو امبر دیکھتے ہیں
ہماری منتظر ہیں شاہراہیں
پہ سویا ہم کو بستر دیکھتے ہیں
نکلنا بھی ضروری ہے صفر پر
کبھی صحرا کبھی گھر دیکھتے ہیں
بنایا جب سے شیشے کا گھروندا
ہر اک پتھر کو ڈر کر دیکھتے ہیں
خزانے ہیں مقدر میں انہی کے
جو ہر سیپی میں گوہرِ دیکھتے ہیں
ندیم ہم منتظر کس چیز کے ہیں
کہ بے عملی کو گھر گھر دیکھتے ہیں