اے میرے متاعِ حیات سُن
Poet: Rukhsana Kausar By: Rukhsana Kausar, Jalal Pur Jattan, Gujratاے میرے متاعِ حیات سُن
میرے عزیز از جاں
تیرے واسطے میرے تمام پل
تیرے واسطے میری ہر صُبح
اے میرے متاعِ حیات سُن
یہ تو آج بھی نہ جان سکا
میں تیری چاہت تیری یاد کی
ہر مہک میں ہوئی فشاں
میں نے جیا تو تیرے لیے جیا
میں نے ہر لمحہ اپنے مالک سے بس تجھ کو ہی مانگ لیا
اے میرے متاعِ حیات سُن
حشر میں بھی مجھ کو ملے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو
میں اور کسی جنت کی طالب نہیں
میں تیری ہی چاہت میں جیتی رہوں
میرے جینے کا اور کوئی سبب نہ ہو
تو جان میری۔۔ ایمان میرے ، تو اگر ہو جائے خفا
تو ہو جائے ساری دُنیا بے رنگ
اے میرے متاعِ حیات سُن
میں روکوں تو تجھ کو ہی پاؤں
میں چلوں توہی ہو میرے سنگ
اے میرے متاعِ حیات سُن
میں تیرے لیے ہی جیتی ہوں اب
تیرا ہر درد ہنس کے پیتی ہوں اب
تیری چاہتوں کی کھوج میں
تجھے مکمل پانے کی سوچ میں
میں ابھی تلک زندہ ہوں
تو میرے پندارِ شباب کا سرمایہِ حیات ہے
توفقط تو ہی میری سانسو ں کا متاعِ حیات ہے
اے میرے متاعِ حیات سُن
رخسانہ کوثر
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






