مانا کہ التفات بھری ہے تری نگاہ
تری مرمریں سی بانہوں مل جائے گی پناہ
پر حر ز جاں بنانا مجھے ٹھیک ہے کہاں
پر خار ہے سدا سے مری زندگی کی راہ
اے نازنیں ہے وقت ابھی سوچ لے ذرا
بے خانماں ہوں سر پہ کوئ سائباں نہیں
پنچھی ہوں جس کے پاس کوئ آشیاں نہیں
قائل ہوں میں وفا کا مگر یہ جہان میں
کار زبوں ہے اس کا کوئ قدر داں نہیں
اے نازنیں ہے وقت ابھی سوچ لے ذرا
اس سیم و زر کے دور میں تقصیر ہے وفا
اندوہ گین رات کی تفسیر ہے وفا
تضحیک تیرے پیار کی مقصد نہیں مرا
پر سچ یہ ہے جہان میں تزویر ہے وفا
اے نازنیں ہے وقت ابھی سوچ لے ذرا
بیزار تجھ سے ، تیری رفاقت سے تو نہیں
برگشتہ میرا دل تری الفت سے تو نہیں
لیکن حزیں ہے زیست مری اور تجھ کو بھی
مجھ سے ہے پیار میری فلا کت سے تو نہیں
اے نازنیں ہے وقت ابھی سوچ لے ذرا
اس تیرگی میں تیرے تبسم کی ضو سہی
میری خاموشیوں سے تری گفتگو سہی
کل میری مفلسی سے وفا توڑ دے گی دم
گو آج تجھ کو میری بہت آرزو سہی
اے نازنیں ہے وقت ابھی سوچ لے ذرا