تنہائیو ں کے زہر سے جو شخص مر گیا
کہتے ہیں اسکے سو گ میں سارا شہر گیا
اے چاند کس کو ڈھوننے نکلا ہے آ ج رات
و ہ دل شکستہ شام سے ہی اپنے گھر گیا
ما نندِ طفل دل سے میر ے کھیلتا ر ہا
شاید پھر اِس کھلونے سے دل اُسکا بھر گیا
رہتا تھا تیر ے شہر میں جو شخص تشنہ لب
و ہ بادلو ں کے ساتھ نہ جانے کدھر گیا
ٲساحل پہ پھر سے جھگیاّں آ باد ہو گئیں
د ر یا محبتو ں کا کبھی کا اُ تر گیا
اُسکے لیے سہل تھا جدائی کا حادثہ
میرے لیے تو وقت و ہیں پر ٹھہر گیا
رہتا ہے اب بھی آپ کے شہرِ خیال میں
وہ آدمی جو آپ کو دیوانہ کر گیا
یاروں نے سکھ کا سانس لیا موت پہ مرِی
بو لے خد ا کا شکر ہے آ شفتہ سرَ گیا
مجھکو تو یاد ہے وہ ملاقات دوستو
جس میں وہ میرے گھر کا پتہ پوچھ کر گیا