اے گلابِ جاں ، اے گلابِ من
مری بات سن، مری بات سن
تجھے توڑ لوں یہ کہا نہ کر
مرے ساتھ ساتھ رہا نہ کر
مرے ہاتھ چھلنی ہیں اس قدر
تجھے توڑنے کی سکت نہیں
یہ لہو لہو سا بدن مرا
کوئی زندگی کی رمق نہیں
مرے ہم نوا مرے دل جگر
بڑی دیر بعد ملا ہے تو
ترے آنے سے ذارا پیشتر
کوئی خار مجھ میں چبھو گیا
کوئی موت مجھ میں سمو گیا