اے ہم سخن جب بھی تیری تحریر پڑھتا ہوں
تو اپنے لفظ اپنے استعارے بھول جاتا ہوں
اجالوں سے بھری صبحیں
گلوں سے تازگی لے کر
کرن سے روشنی لے کر
خمار زندگی لے کر
جگاتی ہیں امنگوں کو
تو راتوں کی سیاہی میں
جو سوچیں دیکھتی ہیں خواب سارے بھول جاتا ہوں
نجانے کیسا جادو ہے
تیرے طرز تکلم میں
کہ لمحے جھوم جاتے ہیں
چمن کو چوم جاتے ہیں
ستارے رقص کرتے ہیں
طلاطم گھوم جاتے ہیں
تخیل سوچ میں پڑ کر
معانی بھول جاتا ہے
حوادث کی مصائب کی
کہانی بھول جاتا ہے
کئی گزرے ہوئے لمحے
مسلسل یاد آتے ہیں
سلایا ہے جنہیں میں نے
وہی مجھ کو جگاتے ہیں
تمہیں معلوم ہی کب ہے
دل ناکام کا قصہ
تمہیں معلوم ہی کب ہے
کہ وہ جذبوں بھرے لمحے
کبھی جب یاد آتے ہیں
تو پھر کتنا رلاتے ہیں
تمہارے لفظوں کا جادو
میرے خوابیدہ رازوں کو
کبھی لوری سناتا ہے
کبھی جنجھوڑ دیتا ہے
میری وحشت کی لہروں کا
یہ رخ یوں موڑ دیتا ہے
کہ ساحل ۔ ناؤ ۔ منزل اور کنارے بھول جاتا ہوں
اے میرے ہم سخن جب بھی تیری تحریر پڑھتا ہوں