بات مقدر کی ہے ساری وقت کا لکھا مارتا ہے
کچھ سجدوں میں مر جاتے ہیں, کچھ کو سجدہ مارتا ہے
تیری کیا اوقات رے دنیا تو اور میرے منہ آئے
میں تو چیر کہ رکھ ڈالوں پر یار کا بولا مارتا ہے
صرف ہمِیں ہیں جو تجھ پر پورے کہ پورے مرتے ہیں
ورنہ کسی کو تیری آنکھیں, کسی کو لہجہ مارتا ہے,
شہر میں ایک نئے قاتل کے حسنِ سخن کے بلوے ہیں
اُس سے بچ کے رہنا شعر سنا کے بندہ مارتا ہے,
اب عُشاق کا میلہ ہو تو مجنوں کو بھی لے آنا
عاشق تو جیسا بھی ہے پر نعرہ اچھا مارتا ہے,
وہ تو علی زریون ہے بھائی اس کی گلی کا بچہ بھی
بات زرا سی غلط کہو تو مُنہ پہ مصرع مارتا ہے