بات کرتا ہوں میں ان کی جب بھی زمانے سے
چھوڑ جاتے ہیں مجھے تنہا لوگ کسی بہانے سے
خدا نے بخشی ہے ان کو حسن کی دولت اتنی
چاند بھی ڈرتا ہے ان کے مقابل آنے سے
پیار آیا تھا کس وقت پھولوں کی رنگت میں
حسیں بلبل چمن میں جب آئی آشیانے سے
بدل گئے ہیں تاباں میری قسمت کے رنگ
کسی نے روکا ہے ان کو میرے گھر آنے سے
حق اس کا بھی تھا لیکن یوں سزا دیتا نہ مجھے
جن کا تصور نہ تھا وہ بھی ہیں آج بیگانے سے
مجھے بھی علم ہے اپنی اس کہانی کا لیکن
پھر بھی کہتے ہیں لوگ لگتے ہو دیوانے سے
اے ہوا پریشان ہیں آنکھیں یار کا پتہ دے دے
نامعلوم ہیں راہیں اور ہم ہیں انجانے سے