سوائے اک ہمارے، ساروں سے بات کرتا ہے
فقط اک ہمیں جلانے کو، ہزاروں سے بات کرتا ہے
نکالنے کو بھڑاس دل کی، ہر بار ہی وہ شخص
غزل کی صورت میں، ہتھیاروں سے بات کرتا ہے
سو نہیں پاتا، راتوں کو وہ بھی اکثر
چاند تکتا ہے رات بھر، اور ستاروں سے بات کرتا ہے
کر لیتے ہیں ہم بھی گفتگو، پرندوں سے کبھی کبھار
اکثر وہ بھی جھیل کے، کناروں سے بات کرتا ہے
دل کو بہلانے کو، عجب ڈھنگ سے ہر شام
تصویریں لگا کر میری، دیواروں سے بات کرتا ہے
مان ہی جائے گا حاوی، روٹھا ہُوا وہ شخص
ترکِ تعلق میں بھی جو، اشاروںسے بات کرتا ہے