بادل کی طرح چھائے، جب چھائے ہو، برسو بھی
بھیگا ہو بدن کچھ تو، اوروں کو خبر ہو بھی
اب ضبط نہیں ہو گا، ارمانوں پہ کیا کیجئے
یہ کیا کہ قریب اتنے آئے ہو تو ترسو بھی
برسوں سے نہیں دیکھا، آنکھوں میں نمی آتے
پتھر کی نہ ہو جائیں، اک بار یہ سوچو بھی
آئے ہیں فقیرانہ اور در پہ صدا دی ہے
جھولی بھی ہے پھیلائی، تُم ہاتھ سے کچھ دو بھی
ناراض رہے کوئی، موقع پہ نہ خوشیوں کے
یاروں کو خبر کرنا، بھولو نہ عدو کو بھی
قاتل بھی ہو اب کیسا، ہتھیار کوئی بھی ہو
مرنا ہی مجھے ٹہرا ، اظہر تو ہو اب جو بھی