بار گاہِ عشق میں، میں سجدہ کیا ہے ان دنوں
Poet: وشمہ خان وشمہ By: وشمہ خان وشمہ, ملایشیابار گاہِ عشق میں، میں سجدہ کیا ہے ان دنوں
داستاں سن کر تری میں خود سزا ہے ان دنوں
اب نہیں ہے حوصلہ میرے وجودِ خاک میں
بے بسی پھر آج چہرے سےنما ہے ان دنوں
یاد وہ آتی رہی عہدِ وفا کی داستاں
جب دیا بجھنے لگا تھا بچا ہے ان دنوں
بڑھتے بڑھتے بڑھ گئے جب ضبط غم کے فاصلے
یاد تیری جب بھی آئی میں فداہ ہے ان دنوں
جو نہ ہونا چاہئے تھا حادثہ ہو کر رہا
میرے اس کے بیچ آخر فاصلہ ہے ان دنوں
وقت کے ریلے میں سارے عد وپیماں بہہ گئے
جو ہماری جان تھا ہم سے جدا ہے ان دنوں
مانگنے کو مانگتے ہیں رب سے مشکل میں دعا
دل سے یہ آواز آئی ہے سزا ہے ان دنوں
پر نظر آئی نہ کوئی کچھ اثر کرتی ہوئی
پھر خموشی اور گہری تھی صدا ہے ان دنوں
تشنگی کی آگ میں آخر کو جل کر مر گئی
آس میرے تپتے صحرا میں ہے ان دنوں
درمیاں کیا کیا دلوں میں حادثے ہوتے رہے
اک تری خاطر یہ وشمہ پھر وفا ہے ان دنوں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






