ہم نے خوشیوں کی طرح دکھ بھی اکھٹے دیکھے
صفحہ زیست کو پلٹو گے تو یاد آؤں گا
اسی انداز سے ہوتے تھے مخاطب مجھ سے
خط کسی اور کو لکھو گے تو یاد آؤں گا
سرد راتوں کے مہکتے ہوئے سناٹوں میں
جب کسی پھول کو چومو گے تو یاد آؤں گا
شال پہنائے گا اب کون دسمبر میں تمہیں
بارشوں میں کبھی بھیگو گے تو یاد آؤں گا
اس میں شامل ہے میرے بخت کی تاریکی بھی
تم سیاہ رنگ جو پہنو گے تو یاد آؤں گا