بارشوں میں کبھی بھیگو گے تو یاد آؤں گا
Poet: By: Shabir, karachiہم نے خوشیوں کی طرح دکھ بھی اکھٹے دیکھے
 صفحہ زیست کو پلٹو گے تو یاد آؤں گا
 
 اسی انداز سے ہوتے تھے مخاطب مجھ سے
 خط کسی اور کو لکھو گے تو یاد آؤں گا
 
 سرد راتوں کے مہکتے ہوئے سناٹوں میں 
 جب کسی پھول کو چومو گے تو یاد آؤں گا
 
 شال پہنائے گا اب کون دسمبر میں تمہیں
 بارشوں میں کبھی بھیگو گے تو یاد آؤں گا
 
 اس میں شامل ہے میرے بخت کی تاریکی بھی
 تم سیاہ رنگ جو پہنو گے تو یاد آؤں گا
More Love / Romantic Poetry







