تعارف ہو چکا لیکن ابھی پہچان باقی ہے
میرے اندر سسکتا چیخختا انسان باقی ہے
ابھی میں جھیل سکتا ہوں محبت کے کئی صدمے
ابھی یہ جان زندہ ہے دل ویران باقی ہے
ابھی تنہا شجر پہ فاختائیں گنگناتی ہیں
تمہارے لوٹ آنے کا ابھی امکان باقی ہے
وفا، چاہت ، محبت بے کلی ، امید ، بے تابی
ابھی تو زندگانی کا بڑا سامان باقی ہے
کسی کمزور لمحے کو نہ خاطر میں کبھی لانا
تیرا پاگل ، تیرا شاعر ، تیرا نادان باقی ہے