تیری نظروں میں فقط خار سجی رہتی ہے
برگ گل بن کے نہ تو بن کہ بنی رہتی ہے
جب بھی خطرہ ہوا لاحق تری سیماؤں کو
باندھ کر سر پہ کفن میرےنمی رہتی ہے
گزرے کوچے سے ترے آج جو انجانے میں
لے کے تن من میں اگن شعلہ لگی رہتی ہے
اس کے جیسا تو کوئی چاہنے والا ہی نہیں
کر کے پابند جو آزاد کجی رہتی ہے
کیسے برداشت کروں میں کہ محبت میں مری
تپشِ دل مجھے ناچار دکھی رہتی ہے
مجھ کو خود اپنی تباہی کا سبب یاد نہیں
وحشتِ دل سرِ بازار لگی رہتی ہے
دل وہ ذرہ ہے جسے شہر طلب یاد نہیں
گرد سی باقی ہے اب ذہن رٹی رہتی ہے
کینوس چاروں طرف پھیلا ہوا ہے وشمہ
پر نہیں ذہن جو تصویر بنی رہتی ہے