سخن شناس ہو لیکن نظر شناس نہیں
تمھاری سوچوں میں دل کی کوئی اساس نہیں
سمجھ سکو تو سمجھ لو ہوں کس قدر تشنہ
کہ میرے ہونٹوں سے ظاہر تو میری پیاس نہیں
ترے خیال سے آباد ہے مری دنیا
ہوا ہی کیا مری محبوب ! تو جو پاس نہیں
جو آج پھر تری یادوں کے پھول مہکے ہیں
بتا دے میری طرح تو بھی تو اداس نہیں
نبھاہ کیسے کروں میں منافقوں سے بھلا
منافقت مری فطرت کو دوست راس نہیں
کھلا رہے گا مرا در سدا تمھارے لیے
تمھارے آنے کی گرچہ کوئی بھی آس نہیں
خزاں نے سارے درختوں کو کر دیا عریاں
وہ سبز پتوں کا ان پہ رہا لباس نہیں
کہاں سے سیکھیں گے آداب بھوک کے مارے
کہ پیٹ بھرنے کو روٹی بھی جن کے پاس نہیں
ستم میں اپنوں کے سہتا رہا ہوں پر زاہد
ستم تو یہ ہے کہ کھوئے مرے حواس نہیں