سُنو اے، گوری,اے پیاری گوری
رنگ کیا یہ کہاں سے چوری
روپ پہ تم نے دھوپ مَلی ہے
ایسی رنگت کہاں سے لی ہے
چاندنی میں تم ڈھلی ہوئی ہو
یا کرنوں سے بنی ہوئی ہو
جھاگ سمندر کا اوڑھے ہو
یا تن پر بادل پہنے ہو
پودا کوئی چنبیلی کا ہو
اونچے پربت کا جھرنا ہو
بنی ہو روئی کے گالوں سے تم
یا پھر پاک خیالوں سے تم
کیسے کہوں سنگِ مر مر ہو
ریشم جیسا کیوئی پتھر ہو
برف سی، لیکن سرد نہیں ہو
ذرا بھی تم بے درد نہیں ہو
گوری تم ہی بھید یہ کھولو
مت شرماؤ، کچھ تو بولو