بتوں کے درسے کسی کو کبھی خدا نہ ملا
ملا جسے بھی رگ ِ جاں سے ما ورا نہ ملا
خدا کو ڈھونڈ لیا ہم نے میکدے میں مگر
صنم کدوں سے تمہیں کوئی ناخدا نہ ملا
سقوطِ ہجر میں آنسو پئے کہ غم کھایا
مریض ِ شب کو انوکھا یہ آب و دانہ ملا
سفرہےعشق کا تنہا ہی کاٹنا ہو گا
کہ اس سفرمیں کسی کو بھی دوسرا نہ ملا
بلادِ نور کے مقتل پہ سارے پیاسے تھے
وجود ِ چشمہ ء آب ِ صفا نہ تھا نہ ملا
غزل سرا ہے مری قبر پر مرا قاتل
مزاج اسے بھی مرے بعد شاعرانہ ملا
سمندروں کا سفر ہو کہ تپتے صحرا کا
سفیر ِ دشت کے سر پر کبھی ہما نہ ملا
چراغ جلتے رہے اور بجھ گئیں آنکھیں
وصال ِ یار کہاں کوئی نقش ِ پا نہ ملا
حضورِ حسن میں درویش جاں لٹا کے چلے
مرے تو ایک نئی زیست کا بہانہ ملا