برسی ہے برسات جو دل کے گاؤں میں
بجنے لگے ہیں پھر سے گھنگرو پاؤں میں
ایک سمندر آنکھ سے کیا بہہ نکلا ہے
طغیانی سی دیکھی ہے دریاؤں میں
تبدیلی کی دوڑ میں چھوڑا شہرِ جنوں
منزل ہو گی خاک یہاں صحراؤں میں
جیون کے ہر کھیل میں دونوں ہارے ہیں
پھر سے کھیلیں زیست کے پتے چھاؤں میں
وقت کی ہر رفتار کو قابو رکھتے ہیں
خوبی ہے یہ دیس کے ان داناؤں میں
بچ نکلی ہوں عشق میں غم کے شعلوں سے
لیکن درد کے سانپ ہیں وشمہ پاؤں میں