بری زمانے کی مجھ کو ہوا نہ لگ جائے
کبھی مری بھی کہیں پر صدا نہ لگ جائے
خلوص سے سبھی کو ملتا اس لیے ہوں میں
کسی غریب کی مجھے بد دعا نہ لگ جائے
مرے تو لمس طنابیں بھی کھینچ لی اس نے
میں اس لیے گیا ڈر ڈائقہ نہ لگ جائے
یہ پوچھنا تھا کہ تم نے کسی سے پیار بھی کیا
تجھے بھی روگ محبت سدا نہ لگ جائے
نہ آشنا ہوں حقیقت ہے عشق تیرے کی کیا
یہ پیار ہوتا ہے کیا مبتدا نہ لگ جائے
زمانے سے میں نہیں ڈرتا اس کا ڈر تو ہے
مرے ہی پیچھے یہ کوئی بلا نہ لگ جائے
میں اس لیے ہی یہاں چھپ کے بیٹھا ہوں شہزاد
ادھر ہی ہوں میں یہ اس کو پتا نہ لگ جائے