بزمِ اشعار زمانے میں سجانے کے لئے
میں تو زندہ ہوں تراساتھ نبھانے کے لئے
کتنی مشکل سے بہایا ہے یہاں خونِ جگر
اپنی آنکھوں میں سمندر کو جلانے کے لئے
اک تری یاد کا رہتا ہے گماں رات تلک
اک ترا عکس مرے آئینہ خانے کے لئے
تو نے یادوں کی حویلی میں چھپا کر رکھ دی
مری سانسوں کی یہ دولت ہے لٹانے کے لئے
ہم کو تقدیر سے شکوہ ہے ، شکایت نہ گلہ
ہم توزندہ ہیں تجھے اپنا بنانے کے لئے
عشق کی راہ میں جلنا ہی ضروری سمجھا
سب کو اٹھتے ہوئے طوفاں سے بچانے کے لئے
کتنا ارزاں ہے یہاں خونِ شہیدانِ وفا
جیسے مہندی ہے یہ ہاتھوں پہ رچانے کے لئے
جس کے کہنے پہ میں سو جاؤں ہمیشہ وشمہ
کاش لوٹے وہ مجھے پھر سے جگانے کے لئے