دسمبر کے آخری دن اور سردیوں کی پہلی بارش ہے
ہمیشہ کی طرح آج بھی بس اتنی سی گزارش ہے
کہ پہلے تو ہاسٹل کا بند کھڑکیوں والا کمرہ تھا اور تم تھے
مگر اب وقت بدل گیا اور تمہاری تنہائی بھی رونق میں بدل چکی ہے
اس گھڑی شاید کسی کے وجود کے سائے میں ہو
پھر بھی سُنو ،، اے جانِ جاں
یہ جو تعلق ہمارا ہے اب ہوا چار سال پُرانا ہے
اس سے پہلے کہ آغاز سالِ پنجم ہو
مجھے آگے بڑھنے کی کچھ تو اُمید دلا دو
شاید سمے کی بھی یہی سازش ہے
مجھے بس ایک بار،بس ایک بار جاناں
میرے نام سے پُکار دو