بس یہی بات یہاں حرف عنایت سے ملے
میں نے دریا کی نہیں دشت حفاظت سے ملے
ہم تو موجوں سے لڑے اور کنارے پہنچے
ہم نے کب ڈوبتی کشتی کی حمایت سے ملے
ورنہ کیا ہم کو غرض حال تمہارا پوچھیں
بات یہ کچھ بھی نہیں صرف محبت سے ملے
ابھی دالان میں اترے نہیں شب کے سائے
جانے والے نے سنا ہے کہ بغاوت سے ملے
لاکھ موجیں ہوں مخالف کہ ہوا ہو ناراض
پار اس بار بھی دریا کسی صورت سے ملے
میرے ہونٹوں پہ خموشی کے پڑے ہیں تالے
میری آنکھوں نے مری آج بھی چاہت سے ملے
اب اسے ڈھونڈنے نکلی ہیں کہ وشمہ یادیں
جس نے کاغذ کے لباسوں کی تجارت سے ملے