ہائے یہ برسات اور یہ رِم جھم
سوندھی سی مٹی کی خوشبو اور ہم
بھول گئے سارے غم
میرے وطن کی مٹی اور ہم
اس مٹی میں بسی اس کی خوشبو اور ہم
آنکھیں ہیں غضب مسکان میں ہے دم
مجال کہ ہو جائیں اداس ذرا بھی ہم
وہ ساتھ ہو تو پھر پاس کہاں آتے ہیں فکر و غم
اب تو کر ہی لیں بغاوت ذرا ہم
کوئی مانے نہ مانے مان گئے ہم
لاکھوں میں اک ہمارا صنم
کم سن سی عمر اور اس پر بلا کا بھرم
وقت کرلے جتنے بھی ستم
کہتا ہے نہ ہوں گے اب جدا ہم
کر لیا فیصلہ اک قدم بھی پیچھے نہ ہٹیں گے ہم