بند کمرے میں مقدر کی لکیر کو دیکھتا رہتا ہوں
دیوانوں کے جیسے تری تصویر کو دیکھتا رہتا ہوں
لکھ کے ترے نام حالِ دل کاغذوں پے
سوچتا رہتا ہوں میں تحریر کو دیکھتا رہتا ہوں
تُو موجود بھی ہے مگر دیکھائی نہیں دیتی
میں بڑی غور سے اپنی تقدیر کو دیکھتا رہتا ہوں
میرے محافظ نے کیا تھا وار مجھ پے
اِک نظر محافظ اِک نظر شمشیر کو دیکھتا رہتا ہوں
ناجانے کیوں دیکھائی دیتا ہے مجھے میرا عکس
میں اکثر صدا دیتے ہوئے فقیر کو دیکھتا رہتا ہوں
حالاتِ مفلس میں آ کے تھام لیا مجھے
اِس لئے دلبر دل گیر کو دیکھتا رہتا ہوں
نہال میں نہ عاشق نہ شاعر نہ رانجھا
پھر بھی اِک لڑکی میں ہیر کو دیکھتا رہتا ہوں