سنا ہے کسی اپنے کو یادوں سے بھلایا نہیں جاتا
اس کی یادوں سے پیچھے چھڑ ا یا نہیں جاتا
سنگ بیتے جاڑے کی شاموں کوبھلایا نہیں جاتا
کسی کی یادوں پر پہرا بٹھایا نہیں جاتا
سردیوں کی سرمئی شاموں میں اس کا مسکرانا بھلایا نہیں جاتا
ان کہی باتوں پر بھی اس کا سمجھ جانا یادوں سے نکالا نہیں جاتا
اف اس کی یادوں کا سرِ عام آ جانا
ہم سے اب یہ بوجھ اٹھایا نہیں جاتا