بچھڑ کر مجھ سے کچھ دیر تو تو بھی رویا ہوگا
یاد کر کے مجھے اکثر تو بھی تو نہ سویا ہوگا
یاد ماضی کی تمہیں کچھ دیر تو جلاتی ہو گی
کبھی تنہائی میں میری جان تو بھی کھویا ہوگا
بہا کر آنسو دل کی دنیا میں کیسے تو نے
پیار کی کشتی کو بھی پر خوف ڈبویا ہوگا
دل کی تختی سے میرے نام کی تحریر کو تو
نے کتنی حسرت سے میری جان دھویا ہوگا
تیری باتوں سے ساجد نمی کا ملتا ہے اثر
پرانے زخموں نے کوئی نیا درد بویا ہوگا