بچھڑ کے برسو ں ملے ہو کہو کہ پہچا نا
سنو کہ عر صہ ہو ا مرَ گیا و ہ د یو ا نہ
کہا تو میں نے نہیں پر یہ چا ہتا ہوں کہ تم
جو ہو سکے تو کسی ر و ز میر ے گھر آ نا
ہوا چلی تو ِکھلیں گے گلاب ہونٹوں کے
چلی ہو ا تو درختو ں میں چھپُ کے شر ما نا
جو کھلُ سکے دمِ وحشت لبِ حنا کا فسو ں
شبِ سیاہ ة کی زلفیں سنو ا ر تے جا نا
یہ کیسی آ گ دھکتی ہے سینہء شب میں
کرم ہو یا کہ ستم ہو اسے بجھا جا نا
تمہا ر ے سا منے آ تا ہوں سو بہانوں سے
عجیب شخص ہوں رہتا ہوں بنَ کے بیگا نہ
نظر بچا کے میری سمت د یکھنے و الے
تمہارے بس کا نہیں رو گ ظلم فر مانا
و ہ سات سال بچھڑ کر ملا مگر کچھ یو ں
کہ مجھ کو د یکھ کے چو نکا ، مگر نہ پہچا نا
خدا کا شکر بہت خوش ہے بال بچوں میں
ترے شہر سے بہت د و ر تیرا د یو انہ
کھلا یہ را ز کہ ا نو ر تو سخت کا فر تھا
برا ہو ا جو اُ ے عمر بھر خد ا جا نا