بچھڑ کے مجھ سے تجھے بھی زوال ہو کچھ تو
مری طرح ترا جینا محال ہو کچھ تو
مری طرح تو نہ روۓ وہ درد سے لیکن
میں چاہتا ہوں اُسے بھی ملال ہو کچھ تو
کسی کےعشق میں مَیں نےبھی جاں گنوائی ہے
وفا کے شہر میں میری مثال ہو کچھ تو
یہ سچ ہے عشق نہیں ذات و شکل کا مہتاج
مگر دکھاوے کو حسن و جمال ہو کچھ تو
تمام عمر اگر ہجر میں گزارنی ہے
ضروری ہے کہ مری جاں وصال ہو کچھ تو
فقیر آۓ ہیں مدت کے بعد میخانے
کچھ اور ہو نہ ہو لیکن دھمال ہو کچھ تو
میں چاہتا ہوں غریبی میں نام پیدا کروں
زمانہ چاہے مرے پاس مال ہو کچھ تو
مرے خدا مرے قاتل کو حادثوں سے بچا
کہ میری مرگ میں اُس کا کمال ہو کچھ تو
عدُو نہتا ہو بــــــــــــــــاقرؔ تو وار کیا کرنا
کرو یوں وار کہ پاس اُس کے ڈھال ہو کچھ تو