بچھڑ کے وہ آج ملا اتفاق سے
جیسے خزاں میں پھول کھلا اتفاق سے
بدلا بدلا سا تھا سارا مزاج دل ک
جیسے وہ چھپا رہی تھی کوئی راز دل ک
مجھے دیکھ کے وہ اچانک اُداس ہو گئی
ایک دم سے وہ رقیب کے پاس ہو گئی
جل سا گیا تھا دل یہ تماشا دیکھ کر
رو ساگیا تھا دل اُس کی یہ ادا دیکھ کر
میں اُداس تھا وہ بھی افسردہ تھی
میں بے جان تھا وہ بھی مُردہ تھی
نگاہوں سے معافی کی طلبگار تھی وہ
لگتا تھا کہ مجبوریوں میں گرفتار تھی وہ
راہیں وہی تھی ہم سفر بدل گئے
دل وہی تھے دل بر بدل گئے
کیا خوب کھیلے تقدیر نے کھیل یارو
کیسے موڑ پے کر دیئے پھر میل یارو
معلاقات تو ہوئی پر بات نہ ہو سکی
آنکھ بھر آئی اور دیکو آنکھ نہ رو سکی
وہ بھی چلے گئے چشم نم لئے
ہم بھی لوٹ آئے پھر نیا غم لئے
نہال غمگین میں بھی تھا وہ بھی ضرور تھی
بے بس میں بھی تھا اور وہ بھی مجبور تھی