بڑی مدت ڈالے رکھا تم نے مجھے امتحاں میں
نہ چہرہ دِکھا تیرا ٗ رہی اس قدر تیری اماں میں
تم کیا جانو ٗ سینے میں دل کے دھڑکنے سے
اِک زلزلہ سا آتا ہے کچھ دیر جسم و جاں میں
نجانے انتظار تھاٗ پیار تھا کہ آس تھی میری
یا آثار تھے تمہارے ملن کے ٗ ڈالتے گماں میں
یا وہ خوبصورت پل تھے میرے جیون کے یہ
جب کرتے تھے یاد ٹوٹ کے درد کے آشیاں میں
دھڑکتے تھے تم ہی میرے نازک قفسِ قلب میں
اِک ہلچل اُٹھا دیتے تھے میرے پورے جہاں میں
اور میں گُم سُم سوچا کرتی تھی صورت ِ حال کو
ہے یہ کون میرے اندر اِس سُریلے طوفاں میں
ایسا ہوتا تھا سدا بڑے چپ سے ماحول میں ہوتا
رقص میری ذات میں ٗ نہ رہتی حرکت زباں میں
ہاں وہ تم ہی تھے میری صبح کی انگڑائی میں
میں نے لائی نہ تھی بات کبھی دھیاں میں
کیونکہ جانتی تھی نہ مَیں بھی اس معجزہ کو کبھی
جُڑا ہے کون مجھ سے رب کے آسماں میں