غموں کا پھر وہی موسم ،وہی آہوں کی ہے برسات
وہی اجڑے ہوئے شام و سحر ہیں ،پھر وہی صدمات
کسی کو کیسے بتلاؤں مرے دل کا ہے کیا عالم
بڑی مشکل سے کٹتے ہیں مری تنہائی کے لمحات
نظر آتے نہیں روشن سحر کے دور تک آثار
گماں تھا کٹ ہی جائے گی غموں کی یہ اندھیری رات
محاز زندگانی پر مرے پاؤں نہ تھرائے
اگرچہ ہر قدم پر مجھ کو قسمت سے ہوئی ہے مات
نگاہوں میں اداسی ہے لبوں پہ گہری خاموشی
مگر پھر بھی نہ سمجھا آج تک کوئی مرے جذبات
چلے جانے پہ اس کے رو رہا ہوں آج لاحاصل
وہ میرے پاس تھا پر کہہ نہ پایا اس سے دل کی بات
مری قسمت کہ تیرے پیار سے محروم ہوں اب تک
اگرچہ میں نے تیرے واسطے لکھے حسیں نغمات
اگر بچپن میں ہوں محرومیاں زاہد تو سنتے ہیں
ہمیشہ ان کے انسانوں پہ رہتے ہیں برےاثرات