بکھرتی زلف کی خوشبو میں کتنے راز چھپے ہوں گے
تری پلکوں کی چھاؤں میں کئی جذبے جلے ہوں گے
نظر کا جادو ایسا ہے کہ منظر پل میں بدل جائے
تری ایک چشمِ شیریں سے کئی عالم دھلے ہوں گے
تِرے لب بولتے کم ہیں، مگر سب کچھ سنا دیتے
خموشی میں بھی الفاظوں کے رنگ و نغمے بہے ہوں گے
ترا چہرہ ہے آئینہ کسی خوابوں کی بستی کا
نظر جس پر ٹھہر جائے، وہاں لمحے رکے ہوں گے
ترا انداز چلنے کا، صبا کو بھی سکھاتا ہے
کہ کیسے گام زن ہو کر کوئی دل میں اتر جائے
سحر کی چاندنی جیسا ہے تیرا نرم لہجہ بھی
جو سن لے تیرے ہونٹوں کو، وہی پل میں سنور جائے
رحمانی! اب بھی پلکوں پر اُسی لمحے کو رکھتا ہے
جو اُس کی مسکراہٹ سے، غزل کا مصرعہ بنتا ہے