کسی دشت کے مکان میں
وحشتوں کا لباس پھنے
اداسیوں کی چادر اوڑھے
سر شام اک شخص
بھت چپ چپ بھت گم صم
بھت اداس رھتا ھے
دن کے اجالے میں
آنکھوں کو جب ضبط کے کنگن پھناتا ھے
تو آنسوں کے کھنکنے سے
پلکوں کے ساحل بھیگ جاتے ھیں
اسکے لبوں پہ جب درد کی سرخی
رقص کرتی ھے
لوگ سمجھتے ھیں
وہ ھنستا رھتا ھے
مگر!
اک شام اس کی آنکھوں میں
میں نے ڈھلتے دیکھی ھے
جیسے!
ڈھلتے سورج کے جیسی
شفق کی لالی ٹھری ھو
تو یادوں کے بادل سے اک چاند سا چھرا
آ بستا ھے چپکے سے
پھر وہ اس سنگ
ساری رات بتاتا ھے
شب بھر سلگتا ھے
تنکا تنکا بکھرتا ھے
پھلو پھلو جلتا ھے
وہ دشت مسافر ایسا ھے
محبتوں نے اسے شوق سفر تو دان کر دیا لیکن
منزلیں پھر چھین لی اس سے
جل جاتا ھے ھجر کی دھوپ میں لیکن
مخبتوں کے سائے سے بھی خوف کھاتا ھے
بس چلتا جاتا ھے محبت کرتا جاتا ھے
کبھی کسی کی آس پہ سفر نھیں کرتا
کبھی کسی کے انتظار میں نھیں رکتا
بس چلتا رھتا ھے
تنھا تنھا رھتا ھے
سر شام وہ شخص
بھت چپ چپ بھت گم صم
بھت اداس رھتا ھے