بھرم ضبط کا توڑ جاتے ہیں آنسو
یونہی بیٹھے بیٹھے جو آتے ہیں آنسو
لبوں پہ مرے چپ کے تالے پڑے ہیں
مگر داستانیں سناتے ہیں آنسو
صدا ہجکیوں کی اگر دب بھی جاۓ
تو کہرام سا اک مچاتے ہیں آنسو
جو سوجن سے آنکھیں ہی کھلتی نہیں ہیں
کہاں سے سفر کر کے آتے ہیں آنسو
جو خونِ محبت ہوا برسوں پہلے
اسی کا تو ماتم مناتے ہیں آنسو
چمن چاہتوں کا مہکتا ہے اب بھی
کہ ہم روز اس کو پلاتے ہیں آنسو
فلک کانپ اٹھتا ہے سن لے اے ظالم
کہ معصوم جس دم بہاتے ہیں آنسو
یہ مٹی بناتی ہے بت ان کے دیپک
کہ ہم بس زمیں پہ گراتے ہیں آنسو